دہشت گردی فی زمانہ ایسا موضوع ہے جس سے ہرذی شعور شخص واقف ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ لفط اس قدر کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ اب یہ کسی کے لیے بھی کوئی ماورائے عقل وفہم نظریہ نہیں رہا۔ لیکن یہِی ذرائع ابلاغ لفظ دہشت گردی کا استعمال نظریہ ضرورت کے تحت اس نہج پر کرتے ہیں کہ حریت پسندی اور دہشت گردی میں فرق مشکل ہو جاتا ہے۔ نظریاتی طور پر حریت پسندی اور دہشت گردی میں فرق دلچسپ مگر تفہیم کے اعتبار سے مشکل ہے۔ اس لیے کہ دونوں کی کوئی ایک جامع متفق علیہ تعریف نہیں جس پر مشرق و مغرب کے سکالرز یا مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ متفق ہو سکیں چنانچہ ان کی تعریف سیاق و سباق، حالات اور فی زمانہ استعمال کرنے والے کی نیت پر منحصر ہے۔ اقوام متحدہ میں دہشت گردی کی تعریف پر 1972 سے اس وقت تکرار شروع ہوئی جب میونخ میں ہونے والے اولمپک مقابلوں میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا لیکن ابھی تک کسی بھی ایک تعریف پر سب کا اتفاق نہیں ہو سکا۔
دہشت گردی کی تعریف:
معروف عالم جاوید احمد غامدی نے دہشت گردی کی تعریف ان الفاظ میں کی تھی
”غیر مقاتلین کی جان ، مال یا آبرو کے خلاف غیرعلانیہ تعدی دہشت گردی ہے۔غیر مقاتلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حالتِ جنگ میں نہ ہوں۔ان کے خلاف اگر کوئی اقدام انہیں اپنی حفاظت کے لیے متنبہ کیے بغیر کیا جائے تو وہ دہشت گردی قرار پائے گا۔” عام شہری تو بہر حال غیر مقاتلین ہیں، لیکن اگر مسلح افواج بھی برسرِ جنگ نہیں ہیں تو وہ ان پر بھی غیر علانیہ حملہ دہشت گردی قرار پائے گا۔ گویا دہشت گردی وہ کارروائی ہے جس میں یہ دو شرطیںہر حال میں پائی جاتی ہوں۔
• غیر مقاتلین کے خلاف اقدام۔
• غیر علانیہ اقدام۔
جبکہ پروفیسر مشتاق احمد نے دہشت گردی کی تعریف یوں کی ہے ۔
”انسان خواہ مقاتلین(وہ لوگ جو حالت جنگ میں نہ ہوں)ہوں یا غیر مقاتلین (وہ لوگ جو حالتِ جنگ میں ہوں) ان کے حقوق کی خلاف ورزی میں طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی دانستہ طور پر غیر قانونی طریقے سے ہو اور ا س کا مقصد معاشرے یا اس کے کسی طبقے میں خوف و دہشت پھیلانا ہو تو اسے دہشت گردی کہا جائے گا خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں ، یا ان کی تنظیم، یا کوئی حکومت ۔”
اس تعریف کی رو سے کسی کارروائی کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل عناصر بیک وقت پائے جائیں
انسانی حقوق کی خلاف ورزی
• طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی
• ارادہ اور شعور
• غیر قانونی طریقہ
• خوف و دہشت پھیلانا
مغرب کے سکالرز نے اپنی اپنی تعریف کرنے کی کوشش کی اور ہر تعریف میں کوئی نہ کوئی ابہام موجود ہے۔2004 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 566کے مطابق تعریف کچھ یوں ہے
یہ تعریف بھی وضاحت طلب ہے ۔ کیونکہ اس میں ریاستی دہشت گردی کا ذکر نہیں ، جبکہ ریاستی دہشت گردی دنیا بھر میں ایک رواج کی طرح عام ہے ۔
حریت پسندی کیا ہے:
اسی طرح حریت پسندی کی کوئی متفق علیہ تعریف نہیں ہے۔ حریت کے لفظی معنی آزای کے ہیں تو حریت پسندی کو آزادی پسندی کہا جا سکتا ہے ۔ دراصل ”حریت پسندی”کی اصطلاح برصغیر میں ہی مستعمل ہے اور زیادہ تر کشمیری مسلمانوں کے لیے جو بھارت کے سامراجی قبضہ کے خلاف برسر پیکار ہیں ،یہ اصطلاح ان سے منسوب کی جاتی ہے۔ انگلش میں حریت پسند کا متبادل لفظ فریڈم فائٹر ہو سکتاہے اور مروجہ و مستعمل مفہوم کے اعتبار سے حریت پسند کی تعریف یہ ہو سکتی ہے
”ناجائز استحصالی قبضہ کے خلاف مزاحمت میں ، کسی بھی انفرادی، گروہی یا تنظیمی حیثیت میں برسرپیکار شخص کو حریت پسند کہا جاتا ہے ۔”
دہشت گردی اور حریت پسندی میں بنیادی فرق:
دہشت گردی اور حریت پسندی میں بنیادی فرق، مقصد، تحریک اور اقدامات کی جوازیت کا ہے ۔
دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں جس قدر کثرت سے لفظ ”دہشت گردی”کا استعمال کیا جاتا ہے ، اس سے کئی گنا زیادہ احتیاط لفظ حریت پسندی یا اس کے متبادل الفاظ کے استعمال میں کی جاتی ہے۔ لفظ دہشت گرد کا اس تکرار کے ساتھ استعمال ہوا ہے کہ سنتے ہی ہر شخص کے ذہن میں ایک خاکہ ابھرتا ہے جبکہ حریت پسندی کا معاملہ برعکس ہے۔ نہ صرف یہ لفظ کسی ایک خاکے یا تاثر کو جنم نہیں دیتا بلکہ”حریت پسندی”کے جائز و برحق ہونے پر کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے، نیزعالمی ذرائع ابلاغ میں جس طرح ان دونوں اصطلاحات کونظریہ ضرورت کے تحت توڑا مروڑا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جذباتی معنویت جوڑی جاتی ہے ، اس نے ان دونوں کے فرق کو نہایت مبہم اور پیچیدہ کر دیا ہے ۔
دہشت گردی اور حریت پسندی پر عالمی بیانیہ میں نائن الیون کے بعد ایک سو اسی کے زاویے پر تبدیلی آئی ہے ۔ نائن الیون سے قبل افغان مجاہدین جو دنیا کے لیے فریڈم فائیٹرز تھے وہ یکدم دہشت گرد کہلائے جانے لگے اور دہشت گردی کا یہ لیبل بالخصوص ایسی تحریکوں کے لیے استعمال کیا جانے لگاجن کا اسلام سے تعلق تھا۔ چنانچہ افغانستان میں القاعدہ سے منسلک لوگ تو دہشت گرد کہلائے ، ساتھ ہی ساتھ کشمیر اور فلسطین میں بالترتیب بھارت اور اسرائیل کے سامراجی اور صیہونی قبضے کے خلاف مزاحم مسلمان بھی دہشت گرد کہلائے جانے لگے۔ حالانکہ یہ دونوں تحریکیں دہشت گردی کی کسی بھی مروجہ تعریف پر پورا نہیں اترتیں کیونکہ ان کی جوازیت اور مقصدیت اظہر من الشمس ہے ۔
مقولہ مشہور ہے ”ایک شخص کا حریت پسند دوسرے کا دہشت گرد ہے۔” اس لیے ان دونوں اصطلاحات کے استعمال اور معانی کا انحصار عالمی قوانین میں ان کی جوازیت پر ہے ۔ دونوں میں پہلا بڑا فرق مقصدیت کا ہوتا ہے۔
دہشت گردوں کا نظریہ:
دہشت گردعناصر اپنے قبیح مقاصد خوف اور وحشت کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہ حکومتی انفرا سٹریکچر تباہ کرنے کے درپے ہوتے ہیں وہ اس امر کے لیے خود کش دھماکوں، دہشت گردانہ حملوں اور خوف و ہراس پھیلا کر بزورِ طاقت اُس خطے اور عوام کو اپنے تسلط میں لانا چاہتے ہیں اور اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے وہ کسی بھی قسم کی بداخلاقی تک جاسکتے ہیں جس کی ایک مثال دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پشاور میں اے پی ایس کے بچوں کو یرغمال بنا کر اُنہیں شہید کردیاگیا۔ ایسی دہشت گردانہ کارروائیوں کا مقصد یقیناً لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہوتا ہے۔ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیاں کروا کر عوام الناس میں خوف و ہراس اور معاشرے میں غیر یقینی فضا پیدا کرنے کی سازش کرتا ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارت صوبہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ کبھی زیارت میں قائدکی ریذیڈنسی کو نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی بسوں کو، کبھی سکولوں کو، کبھی ریلوے ٹریکس ، کبھی کول مائینز میں کام کرنے والے مزدوروں کو تو اس کے پیچھے ایک ہی مقصد ہے پاکستان کو کمزور کرنا اور عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا۔ اسی طرح ٹی ٹی پی کے مسلح گروہ صوبہ خیبر پختونخوامیں کسی علاقے میں کارروائی کرتے ہیں تو اس کا بھی ایک ہی مقصد ہے کہ دہشت گردی کے بل بوتے پرعوام میں خوف پھیلا کر اپنے ساتھ ملانا۔
حریت پسندوں کا نظریہ:
حریت پسندکسی عظیم تر مقصدکو سامنے رکھ کر مزاحمت کی تحریک چلا رہے ہوتے ہیں اُن کا مقصد جہاں خطے اور عوام کو ان کے حق دلوانا ہوتا ہے وہاں اپنی مزاحمت کو صرف اس انداز سے آگے لے کر چلتے ہیں جس سے غاصبوں اور جارح دشمن کو زد پہنچے۔ وہ اپنے علاقے کے عوام کا تحفظ اور ترقی چاہتے ہیں اور ان کے لیے مساویانہ حقوق یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ کشمیری حریت پسندوں کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ ایک عرصے سے کشمیر میں رہتے ہوئے اپنے عوام کے لیے جہدوجہد کررہے ہیں اور بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کے سامنے نبرد آزما ہیں لیکن انہوںنے کبھی عام شہریوں کے لیے مسائل پیدا نہیں کیے۔ حریت کانفرنس اور دیگر کشمیری تنظیمیں اس طرح حریت کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ نیلسن منڈیلا نے سائوتھ افریقہ کے عوام کے لیے ایک لمبی جدوجہد کی۔ جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ تکالیف سہیں اور آزادی کا حصول ممکن بنایا۔ اسی طرح فلسطین کی آزادی کے لیے یاسر عرفات کی جدوجہد ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔یاسر عرفات وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے آزادی کی اس شمع کو بجھنے نہیں دیا اور رہتے دم تک فلسطین کی آزادی کے لیے سرگرداں رہے۔ وہ فلسطین کے اندر تعلیم، صحت اور ترقی کی کاوشیں کرتے رہے اور ساتھ ساتھ جارح اور غاصب اسرائیل کے خلاف مزاحمت بھی کرتے رہے۔لیکن وہ ساتھ ساتھ مذاکرات کے لیے بھی ہمیشہ تیار رہے۔اسی طرح کشمیر میں بھی کشمیری رہنمامذاکرات پر زور دیتے ہیں لیکن بھارتی حکومت ہمیشہ اس سے بھاگتی ہے وہ دھونس اور طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی ہے۔
بین الاقوامی اداروں کا دوہرا معیار
دنیا میں امن کے قیام اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی ادارے اور طاقین اہم کردار ادا رکرسکتی ہیں لیکن وہ دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں مشرقی تیمور کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں عیسائی انڈونیشیا کی ریاست سے آزادی کے لیے کوشش میں تھے۔ ان کو غیر مسلم جنگجوہونے کے ناتے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی طاقتوں نے معاونت فراہم کی اُنہیں حریت پسندقرار دے کر ان کی آزادی کو یقینی بنادیا گیا جبکہ کشمیر اور فلسطین ایسے مسائل ہیں جو سالہا سال سے اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی طاقتوں کے سامنے ہیں لیکن ان کی داد رسی نہیں کی جارہی۔
تحریک کشمیر کا نظریاتی و قانونی جواز
جسٹ وار تھیوری جنگ کو منصفانہ ، جائز اور مبنی بر حق قرار دینے کے لیے چند پیمانے مقرر کرتی ہے ۔ ان پیمانوں کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کیاگیا ہے ۔
”جس ایڈ بیلم ”(Jus ad bellum)جنگ میں جانے کا حق۔ جس ایڈ بیلم میں مسلح تحریک شروع کرنے کی جوازیت یہ ہے کہ اس کا جائز مقصد ہو، اور مسلح تحریک ہی آخری چارہ ہو ، مسلح تحریک کا اعلان کرنے والے کو اختیار حاصل ہو ، نیت درست اور صاف ہو، کامیابی کے امکانات ہوں اور طاقت کا متناسب استعمال کیا جائے اور” جس ا ن بیلو”(jus in bello)جنگ میں صحیح طرز عملاس کے لیے معیار ہدف کاتعین اور امتیاز، طاقت کا متناسب استعمال اور مسلح تحریک شروع کرنے والے کا ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ جو مسلح تحریک ان پیمانوں پر پوری اترتی ہے اس کو بلا شک و شبہ حریت پسندی سے تعبیر کیا جائے گا۔
کشمیر کی تحریک کا واضح مقصد حق خودارادیت کا حصول ہے ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کا پہلا آرٹیکل تمام انسانوں کے لیے حق خود ارادیت کو بنیادی انسانی حق بتاتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ آرٹیکل55 دنیا کے امن و تحفظ کو حق خود ارادیت سے مشروط کرتا ہے ۔ اسی طرح دو جڑواں معاہدے انٹرنیشنل کوونینٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور انٹرنیشنل کوونینٹ آن سوشل کلچرل اینڈ اکنامک رائٹس کا پہلا مشترکہ آرٹیکل حق خود ارادیت کو غیر مشروط بنیادی انسانی حق قراردیتا ہے مذکورہ بالا دونوں بائنڈنگ معاہدے ہیں اوربھارت ان کا فریق ہے اس لیے عوام کو ان کے سیاسی ، سماجی اور معاشی مستقبل کے انتخاب کا اختیار دینا بھارت کی ذمہ داری ہے۔
نہ صرف یہ کہ عالمی قوانین کی رو سے بھارت پر ذمہ داری لاگو ہوتی ہے کہ وہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو یقینی بنائے بلکہ بھارت خود بھی کئی بار کشمیریوں سے ان کا جائز حق دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم نے متعدد بار کشمیریوں کو یقین دہانی کروائی کہ ان کو ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا ۔
لیکن اس کے بعد بھارت اپنے وعدے سے مکر گیا اور انتخابات کو استصواب رائے کا متبادل قرار دینا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے قانوں سازی شروع کر دی جبکہ عوام کی طرف سے حق خود ارادیت کا مطالبہ اور بھارت کے لیے نفرت بڑھتی رہی ۔ اپنے مطالبے کی منظوری کے لیے کشمیری عوام نے سیاسی جدو جہد کاسہارا لینے کی ٹھانی اور محاذ رائے شماری نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اس تنظیم کی سرگرمیاں دو دہائی سے زائد جاری رہیں ، لیکن ان کی شنوائی بھارت کے ایوانوں میں نہ ہو سکی اور1970 کے اوائل میں بھارت نے شیخ عبداللہ کے ذریعے اس کو ختم کروا دیا اور کشمیری عوام کا مطالبہ ، مطالبہ ہی رہا۔ بلکہ اپنے تسلط کو مضبوط کرنے کے لیے طاقت کا بے تحاشا استعمال شروع کر دیا ۔
کشمیری رہنمائوں نے ایک آخری کوشش کے طور پر متحدہ مسلم محاذ کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ۔ لیکن بھارت نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر کے عوامی سطح پر جیتے ہوئے امیدواروں کو شکست سے دو چار کیا۔ اس کے بعد کشمیری عوام کا بھارت کے اندر رہ کر سیاسی عمل سے اعتماد اٹھ گیا۔ کیونکہ وہ اپنے جائز مطالبے کے لیے تقریباً چار دہائیوں سے پر امن سیاسی کوششیں ناکام ہوتی دیکھ چکے تھے۔ تنگ آمد بجنگ آمد ،مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔ جو نہ صرف مسلح تحریک شروع کرنے کا معروف جواز ہے ، بلکہ عالمی قوانین بھی ان کو اس بات کا اختیار دیتے ہیں۔ دراصل حق خود ارادیت اور آزادی کے لیے مسلح تحریک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
اپنے حقوق کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کا اختیار جینیوا کنونشن کے ایڈیشنل پروٹوکول 2 اور1دیتے ہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے1974 میں اپنی قرارداد 3314میں ریاستوں کو فوجی قبضہ خواہ وہ عارضی ہی ہو ، سے روکا ہے اور نہ صرف حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے بلکہ اس کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کو بھی جائز قرار دیا ہے ۔
مسلح تحریک شروع کرنے والے اور اس کو چلانے والے لوگ وہی تھے جنہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور وہ انتخابی عمل سے مایوس ہوئے ۔
بھارت نے اس تحریک کو دبانے کے لیے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا۔ نہ صرف یہ کہ جنگجو مجاہدین بھارت: کے عتاب کا نشانہ بنے بلکہ اس کی فوج نے عوام پر بھی بے تحاشا ظلم و تشدد کے در وا کر دیے اور تحریک کر دبانے کے لیے سات لاکھ سے زائد فوج وادی کے عرض و طول میں متعین کر دی۔ فوج کوکسی بھی قسم کا جبرروا رکھنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل اس لیے بھی نہ تھی کہ ان کو تمام کارروائیوں کے لیے کالے قوانین، افسپا، پوٹا، ٹاڈا اور پی ایس اے کی شکل میں قانونی تحفظ حاصل تھا۔ چنانچہ کریک ڈائون، سرچ آپریشن ، کارڈن آف اور جبری گمشدگیاں معمول بن گیا۔ مٹھی بھر جنگجوئوں سے خائف ہندوستا ن نے عوام کی حوصلہ شکنی کے لیے خواتین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ اجتماعی زیادتی کے کئی رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات مقبوضہ کشمیر میں پیش آئے جن میں سے ایک واقعہ کنن پوش پورہ کا ہے جہاں فروری 1991کی ایک رات میں کریک ڈاون کے دوران بھارتی افواج نے 100سے زائد خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ہیومین رائٹس واچ نے زیادتی کا شکار خواتین کی تعداد دس ہزار سے زائد لکھی ہے ۔
ماوارئے عدالت انفرادی قتل بھی جب عوام کے حوصلے توڑنے میں کامیاب نہ ہوئے تو بھارت نے اجتماعی قتل کا حربہ بھی استعمال کیا ۔ شبھ ماتھر نے اپنی کتاب میں پانچ بڑے اجتماعی قتل گاو کدل قتل عام ، ہندواڑہ ، زکورہ ، ٹینگ پور اور ہول قتل عام کا ذکر کیا ہے جبکہ بدنام زمانہ سوپور قتل عام کو وہ بھول گیا جس میں ہونے والے بہیمانہ سلوک کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔
جبری گمشدگیاں ، عوامی املاک کو نقصان پہنچانا اور غیر معینہ مدت کی بلا جواز گرفتاریاں کشمیر کے عوام نام نہاد جمہوریت کی علمبردار بھارتی ریاست کے ہاتھوں سہتے آ رہے ہیں ۔ 30 سال قبل غائب ہو جانے والے جوانوں کی مائیں اور بیویاں آج بھی ان کی واپسی کی امید لگائے ہوئے ہیں ۔ جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ”آدھی بیوہ”کی اصطلاح کشمیر میں عام ہو گئی۔ ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیئرڈ پرسنز کے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق گمشدہ افراد کی تعداد دس ہزار ہے ۔
اس کے برعکس دوران تحریک حریت پسندوں کا طرز عمل بھی قابل تعریف رہا ہے ۔ انہوں نے عوامی نوعیت کی املاک کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا۔ اور نہ ہی عوام کو کسی قسم کا جانی وہ مالی نقصان دیا ۔بلکہ ان کو ان کے حسن سلوک اور بلند مقصد کے باعث عوام میں بے پناہ پذیرائی ملی ۔
بھارت نے مزاحمت سے نمٹنے کے لیے نہ صرف مسلح گروپوں میں اپنے مخبر چھوڑ دئے بلکہ مختلف ”فالس فلیگ آپریزشنز”کے ذریعے تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش بھی کی ۔ الفاران نامی ایک گروپ کے ہاتھوں چند غیر ملکی سیاحوں کا اغوا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
بھارت نے جبری تسلط کو دوام بخشنے کے لیے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے جب قانون سازی کی تو عوامی رد عمل کی شدت سے بچنے کے لیے دنیا کا بدترین کرفیو نافذ رکھا ۔ پیلٹ گنز کا بے تحاشا اور غیر امتیازی استعمال کیا جاتا رہا ۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی بھارت سے پیلٹ گنز کے استعمال سے روکنے کے لیے اپیل کی ۔ ان پیلٹ گنز سے زخمی ہوئے اسی فیصد لوگ کلی یا جزوی طور پر بینائی سے محروم ہو گئے ۔ اب بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر ڈیمو گرافک تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ مسلح تحریک کی مدد کرنے کے الزام میں صرف شک کی بنیاد پر کشمیریوں کی جائیدادِیں چھین رہا ہے ۔
کشمیری عوام میں مسلح جنگجوئوں کو بے پناہ محبت اور پذیرائی حاصل رہی ہے اور ابھی تک ہے۔ کوئی بھی گوریلا جنگ اتنے طویل عرصے تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی اگر اس کو عوامی حمایت حاصل نہ ہو ۔ اس عوامی حمایت کو ختم کرنے کے لیے ہر قسم کا حربہ اختیار کرنے کے باوجود بھارت اپنے مقصد میں ناکام رہا ہے۔ شدید پابندیوں کے باوجود شہید حریت پسندوں کے جنازوں میں عوام کا جم غفیر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آزادی کی تڑپ کو طاقت سے دبایا نہیں جا سکتا اور عوام کی یہی محبت اور پذیرائی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ان کے لیے آزادی کی جنگ لڑنے والوں کودہشت گرد پکارنا بھی ان کی اجتماعی توہین ہے ، جو کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ||
تعارف : ڈاکٹر اسما شاکر خواجہ سینٹر فارانٹر نیشنل سٹریٹجک سٹڈیز آزاد جموں و کشمیر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔
asmakhawaja@gmail.com
حفصہ انیس سینٹر فارانٹر نیشنل سٹریٹجک سٹڈیز آزاد جموں و کشمیر میں ریسرچ آفیسر ہیں۔